یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ نبی اکرم ﷺ نے فرما دیا ہے وہ اٹل بات ہے اس بابت دوسری رائے قائم کی ہی نہیں جاسکتی۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ رزق حرام کی نحوست سات پشتوں تک چلتی ہے یعنی رزق حرام کی نحوستیں سات پشتوں کو بھگتنا پڑتی ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس نے بھی رزق حرام سے روپیہ کمایا وہ خود اصل سے محروم ہوگیا اور اس کی دوسری نسل حد تیسری نسل کو بھیک مانگتے لوگوں نے دیکھا۔ مگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور غوروفکر نہیں کرتے۔ ایک صاحب جو محکمہ کسٹم میں بہت بڑے عہدہ پر فائز تھے۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ اپنی مرضی سے ڈیل کرتے تھے اور منہ مانگی رقم لیتے تھے۔ محکمہ کچھ اس قسم کا تھا اور اوپر سے یہ صاحب گُر بھی خوب جانتے تھے اس طرح روز بروز دولت کے انبار لگنے لگے ایک کوٹھی سے دوسری کوٹھی خرید لی گئی۔
بچے اعلیٰ سکولوں میں داخل ہوگئے‘ بیگم صاحبہ نے اپنے ہاتھوں اور گلے کو سونے کے زیورات سے بھرلیا۔ یہ بھی نہ پوچھا کہ اس قدر دولت کہاں سے آرہی ہے؟ اور اس قدر دولت کسی کا حق غصب کرکے اللہ کی مخلوق کو تنگ کرکے ہی اکٹھی کی جاسکتی ہے۔
اللہ ڈھیل دیتا رہتا ہے جب انسان تمام حدود پھلانگ لیتا ہے اور اللہ کی دی ہوئی ڈھیل بھی ختم ہوجاتی ہے تب اللہ پاک کا آفاقی نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ وہی انسان ہوتا ہے مگر اس کا ہر فیصلہ الٹ ہوجاتا ہے۔ اپنے بھی بیگانے ہوجاتے ہیں ان صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کو عجیب بیماری لگ گئی اور ان کے دل میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ میں نے جو رقم اکٹھی کرلی ہے اور لوگوں کو بھی پتا چل گیا ہے لوگ میری مخبری کردیں گے اور مجھے پولیس پکڑ کر لے جائے گی اور ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ پہلے انہیں دفتر کے عملہ پر شک ہوا ان کا جو اسسٹنٹ تھا جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا اور ان کا اعتمادی تھا اسے ایک دن کہنے لگے کہ ’’تم بار بار میرے دفتر میں کیوں آتے ہو؟‘‘ اس نے کہا کہ روٹین کے مطابق دستخط کرانے آتا ہوں۔ ان صاحب نے کہا کہ نہیں تم کسی اور مقصد کے تحت آتے ہو۔ اسسٹنٹ خاموش ہوگیا مگر اس کو بات سمجھ نہ آئی۔ دوسرے دن جب دستخط کرانے گیا تو صاحب نے پھر کہا کہ تم بار بار کیوں آتے ہو‘ اس نے کہا کہ صاحب کیا بات ہے؟ میں ڈاک پر دستخط کرانے آیا ہوں‘ ان صاحب نے کہا نہیں تم مجھے دیکھنے آتے ہو کہ میں بیٹھا ہوا ہوں تاکہ تم پولیس کو بلالو۔ وہ یقین دلاتا رہا کہ اس کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر صاحب نہ مانے۔ ان کا اسسٹنٹ خاموش ہوگیا۔ دو تین بار صاحب نے پھر وہی بات دہرائی جس کی وجہ سے ان کا اسسٹنٹ ناراض ہوگیا اور اس نے صاحب کو کھری کھری سنائیں کہ صاحب آپ نے دولت بہت زیادہ اکٹھی کرلی ہے اور اس لیے آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اسسٹنٹ نے دھمکی دی کہ اگر مزید تنگ کیا تو وہ سچ مچ پولیس کو بلالے گا اور تمام راز بتا دے گا۔ اس پر صاحب کو اسسٹنٹ سے معافی مانگنی پڑی مگر صاحب کا رویہ درست نہ ہوا اسسٹنٹ کے ساتھ بلاوجہ کی سرد جنگ شروع ہوگئی اور غصہ میں اسسٹنٹ نے صاحب کے کمرے میں جانا چھوڑ دیا اوردوسرے ساتھی کو ڈاک پر دستخطوں کیلئے صاحب کے پاس بھیجا جیسے ہی دوسرا اسسٹنٹ صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو صاحب کہنے لگے کہ اچھا اب اس نے تمہیں اندر بھیجا ہے تاکہ خود جاکر پولیس کو بلالائے وہ حیران ہوکر صاحب کا منہ دیکھنے لگا کیونکہ صاحب کا پارہ چڑھا ہوا تھا لہٰذا وہ دستخط کرائے بغیر واپس آگیا۔ اس طرح کئی دنوں سے ہورہا تھا کئی دنوں کی ڈاک اکٹھی ہوگئی تھی اور اب دفتر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ صاحب کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔
گھریلو حالات بھی اچھے نہ تھے صاحب کو بیوی اور بچوں پر شک تھا گھر آتے ہی بیوی سے لڑنا شروع کردیتے بیوی سے کہتے میں آگیا ہوں اب بلالو پولیس اور گھر سر پر اٹھالیتے بیوی بچے لاکھ یقین دلاتے مگر صاحب کی ایک ہی بات کہ تم مجھے گرفتار کراؤگی۔ گھر کا سکون برباد ہوگیا تھا۔ یہ سب رزق حرام کی وجہ سے ہورہا تھا۔ صاحب ساری ساری رات نہیں سوتے تھے‘ اب اس بات کاسب کو علم ہونا شروع ہوگیا تھا اور سارے گھر والے پریشان تھے‘ ایک دفعہ ان کے قریبی عزیز کافی عرصہ بعد ملنے کیلئے آئے صاحب کو ملے۔ صاحب نے ملتے ہی پوچھا کہ اکیلے آئے ہو یا پولیس کو بھی ساتھ لیکر آئے ہو پولیس گرفتار تو نہیں کرلے گی۔ وہ ملاقاتی صاحب کا منہ دیکھنے لگا گھر والے بہت شرمندہ ہوئے اس رشتہ دار نے بھی اپنی بے عزتی محسوس کی اور غصہ میں واپس چلا گیا اور دیگر رشتہ داروں کو بھی بتایا کہ صاحب کادماغ خراب ہوگیا گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کیا جائے تاکہ ان کے دماغ کا علاج کیا جاسکے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ صاحب کو راضی کون کرے کہ آپ ڈاکٹر سے اپنا دماغی معائنہ کرائیں۔ صاحب چھوٹی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے اور اس کا کہابھی مانتے تھے بڑی مشکلوں سے چھوٹی بیٹی نے راضی کیا اور وہ مان گئے ماہر نفسیات کو سارا ماجرا سنایا اس نے دو ماہ علاج کیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ پولیس کا خوف بڑھتا ہی چلا گیا اب بیگم اور بچے مزید پریشان ہوگئے۔ اس دوران بیگم کو ان کی سہیلی نے مشورہ دیا کہ کسی اللہ والے بزرگ سے رابطہ کرو اور بیگم نے بزرگ سے رابطہ کیا اور ساری بات سنائی بزرگ نے تسلی دی کہ مسئلہ حل ہوجائے گا اور تاکید کہ وہ تہیہ کرے کہ وہ آئندہ رزق حرام کو گھر میں نہیں آنے دیگی اور قناعت کریگی اور جو مال رزق حرام کی شکل میں گھر میں ہے اس کو گھر سے نکالے اور غریبوں کی مدد کرنا شروع کرے۔
صدقہ ہزاروں روپے کی شکل میں دے‘ بیگم نے وعدہ کیا کہ وہ اس نصیحت پر عمل کریگی اور پڑھنے کیلئے بھی بتایا اور کہا کہ سارے گھر والے پڑھیں اب گھروالوں کو تسبیح اٹھانا پڑی‘ گھر میں نماز وغیرہ کا کوئی تصور نہیں تھا اب ہر بچے کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ بیگم صاحبہ نے تقریباً گھر کا تمام سامان غریبوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ ایک ہزار روزانہ صدقہ دینا شروع کردیا۔ ایک ہفتہ بعد بزرگ نے دوبارہ بلایا اور وظیفہ اور صدقہ کی تعداد دوگنی کردی۔دوہ ماہ بعد صاحب کی طبیعت سنبھلنے لگی او ر آہستہ آہستہ دفتر میں حالات ٹھیک ہونا شروع ہوگئے۔ بیگم صاحبہ نے صاحب کو بتایا کہ اللہ والے بزرگ کی نصیحت پر عمل کیا اور اللہ کا نام لیا ہے جس کی وجہ سے آپ ٹھیک ہوئے ہیں۔ بیگم نے واضح الفاظ میں صاحب کو کہہ دیا کہ وہ صرف تنخواہ کی رقم استعمال کریں گی۔ دیگر آمدنی کو گھر میں نہ آنے دیں گی۔ قناعت کریںگی اورآئندہ کوئی بھی ناجائز فرمائش نہیں کریگی۔ یہ صحیح ہے کہ آج تک جس نے بھی ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کی اس کے کام نہیں آئی اس لیے اب بھی وقت ہے فیصلہ کرلیں اور اللہ کا حکم مان لیں پھر شاید مہلت نہ ملے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں